Donkey and medal

السلام علیکم دوستو

ایک بہت ہی پیارا مضمون تمام قارئین کیلئے

نوٹ ۔۔اس مضمون کا سیاست کیساتھ تعلق جوڑنا محض اتفاقی ہوگا


گدھا اورتمغۂ خدمت 

.

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ ملک بڑا خوشحال تھا۔

لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے آزادی کے پودے کی داغ بیل دنیا میں سب سے پہلے اس ملک میں پڑی ہو اور جمہوریت کا سورج یہیں طلوع ہوا ہو۔

وقت گزرتا گیا۔ پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ نہ معلوم کیوں پورے ملک میں سخت قحط پڑ گیا۔

نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ جن لوگوں کے آگے پیچھے ہر وقت کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی رہا کرتی تھی اور جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوا کرتی تھیں، وہ خشک روٹی کے ٹکڑوں تک کو تر س گئے ۔

جب بادشاہ نے دیکھا کہ قحط سے لوگوں کی کمر ٹوٹی جارہی ہے ، تو اسے ملک میں بغاوت کا

خطرہ ہوا۔سوچ سوچ کر اسے اس خطرے سے بچنے کی ایک انوکھی راہ سجھائی دی ۔اس نے ملک بھر

میں ، شہر شہر گلی گلی ، ڈھنڈورچی روانہ کروائے اور بذریہ منادی مندرجہ ذیل شاہی فرمان رعا یا تک پہنچادیا۔

میرے عزیز ہم وطنو! پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ مابدولت نے اپنی رعایا کی عظیم خدمات

کے عوض تمام مستحق افراد کو تمغۂ خدمت عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ لہذا جس کسی نے آج تک ملک اور عوام کی کوئی خدمت کی ہو، اسے چاہیے کہ فورا شاہی محل میں حاضر ہو جاۓ ۔ مابدولت اسے تمغہ خدمت سے نوازیں گے ۔


منادی سنتے ہی ملک کے طول وعرض میں ہر شخص کے سر پر تمغہ حاصل کرنے کی ایسی ڈھن

سمائی کہ کسی کو بھوک، پیاس، قحط، بیماری یا کمر توڑ گرانی کا احساس تک باقی نہ رہا۔ ادھر بادشاہ نے قومی خدمات کی نوعیت کے مطابق چھوٹے بڑے ہر قسم کے تمغے تیار کروائے ۔

 تمغہ خدمت درجہ اول خالص سونے کا بنوایا گیا۔ درجہ دوم چاندی کا ، تیسرے درجے پر رولڈ گولڈ ، پھر پیتل ،لوہا وغیرہ وغیرہ

شاہی دربار میں تمغہ حاصل کر نے والے امید واروں کا تانتا بندھ گیا۔

ہر شخص کو اس کی خدمات کے مطابق کوئی نہ کوئی تمغہ دیا گیا

تمغے اتنی فراوانی سے دئے گئے کہ تھوڑے ہی عرصے بعد ملک میں مزید تمغے بنانے کے لیے نہ سونا بچا، نہ چاندی اور نہ کوئی

دھات ۔ مجبورا لکڑی ، چمڑے اور اس قسم کی دوسری اشیاء تمغہ بنانے میں استعمال کر نا پڑیں  ایک سے زیادہ تمغے حاصل کرنے والوں کی تعدادبھی خاصی ہوگئی ۔ جدھر دیکھو مشکیزوں کی طرح پھولے ہوئے سینوں پر لٹکتے تمغے یوں ٹن ٹن کرتے سنائی دیتے جیسے دھوبی کے گدھے کی گردن میں گھنٹیاں ۔

ایک گاۓ نے جب ہرانسان کی چھاتی پر لٹکتے   تمغے دیکھے اور اسے پتہ چلا کہ

بادشاہ سلامت ہر آۓ گئے کو تمغوں سے نواز رہے ہیں ، تو اسے بھی قسمت آزمائی کا شوق چرایا۔ بھوک سے بے چاری کی پسلیاں ابھری ہوئی تھیں، جسم کا گوشت لٹک چکا تھا ، جس کی وجہ

سے ایک ایک ہڈی گنی جاسکتی تھی ۔ اس کے باوجود گاۓ بھاگی اور سیدھی شاہی محل جا پہنچی ۔

دربانوں نے راستہ روکا تو بولی 

”بادشاہ سلامت کو اطلاع دی جائے کہ ان کی رعایا میں سے ایک گاۓ شرف ملاقات کے لیے حاضر ہوئی ہے ۔“

دربان نے گائے کو ٹرخانے کی لاکھ کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی ۔ مجبورا بادشاہ کو اطلاع

دی گئی ۔ بادشاہ کے حکم پر گائے کو دربار میں پیش کیا گیا ۔ بادشاہ بولا :

بول اے گائے، کیا بولنا چاہتی ہے 

گاۓ نے عرض کی :

"بادشا و سلامت میں نے سنا ہے آپ رعایا کو تمغے عنایت فرمارہے ہیں، چنانچہ میں بھی اپنا حق لینے کی خاطر آپ کے دربار میں حاضر ہوئی ہوں ۔

تم جیسے حیوان کو شاہی تمغوں کی توہین کی جرات کیونکر ہوئی ؟ آ خر حیوان اس ملک کی کون سی خدمات سرانجام دیتے ہیں جن کے عوض انہیں تمغے دیے جائیں؟‘‘

بادشاہ نے غصے سے چلا کر کہا۔

گاۓ نے جواب دیا:

حضور والا! اگر آپ کی یہ ناچیز خادمہ تمغے کی حقدار نہیں ، تو پھر بھلا اور کون حقدار ہوسکتا

ہے، میں آپ کی اور آپ کے عوام کی ہرممکن خدمت کرتی ہوں ۔ انسان میرا دودھ پیتا ہے ۔ میرا

گوشت کھا تا ہے ، میری کھال استعمال میں لاتا ہے، یہاں تک کہ میرا گوبر بھی نہیں چھوڑتا۔آپ

خود ہی انصاف کیجئے ، ایک تمغہ حاصل کر نے کے لیے اس سے زیادہ اور کیسی خدمات کی ضرورت

ہوتی ہے ۔

گاۓ کی دلیل سن کر بادشاہ خوش ہو گیا اور اس نے حکم دیا کہ گاۓ کوفو را تمغہ خدمت

درجہ دوم عطا کر دیا جاۓ ۔

گاۓ گلے میں تمغہ اٹکائے ، بڑے فخر سے مٹکتی مٹکتی واپس لوٹ رہی تھی کہ راستے میں

اسے ایک خچر ملا۔

’’گاۓ باجی سلام !‘‘

’’سلام خچر بھیا ۔‘‘

باجی آج بڑی خوش نظر آ رہی ہو، کیا وجہ ہے؟ کہاں سے آ رہی ہو؟ اور ہاں ، یہ گردن میں کیا لٹکا رکھا ہے؟‘‘

گائے نے خچر کو سارا ماجرا سنایا۔ خچر کو بھی جوش آ یا ،فورا سرپٹ بھاگا اور جا کر شاہی محل

کے گیٹ پر دم لیا۔ دربانوں سے بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضری دینے کی خواہش ظاہر کی ،

مگر کسی نے ایک نہ سنی ۔

خچر اپنی موروٹی ضد پر اڑا رہا۔ پھر ایک دربان پر دولتیاں جھاڑ دیں،

ایک دولتی شاہی محل کے گیٹ پر ماری۔ آخر بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ ایک گستاخ مہمان اندر آ نا چاہتا ہے ۔ بادشاہ نے حکم دیا۔

خچر کو پیش کیا جاۓ ، آخر وہ بھی تو ہماری رعایا ہی شمار ہوتا ہے ۔‘‘

خچر نے اندر آ کر بادشاہ کوفرشی سلام کیا اور تمغے کے حصول کے لیے عرضداشت پیش کی ۔

بادشاہ نے پوچھا:

’’اے خچر ، تمہاری کون سی ایسی خدمات ہیں جن کے بدلے تم اپنے آپ کو تمغے کا حقدار. سمجھ کر مابدولت کے دربار میں آئے ہو؟

خچر نے عرض کیا


"اعلی حضرت مجھے یہ جان کر بڑا ڈکھ ہوا ہے کہ آپ کو اس نا چیز کی خدمات کا علم ہی نہیں ۔

ذرا یہ تو بتائیں کہ جنگ کے دوران کون بھاری سازو سامان اور گولہ بارود 

اٹھا کر دشوار گزار راستوں سے ہوتا ہوا پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچاتا ہے ۔سپاہیوں کا راشن کون ڈھوتا ہے امن کے زمانے میں بھی آپ کے بال بچوں کو اور آپ کی رعایا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں میرا کچھ کم حصہ نہیں ہے۔ اگر اس ملک میں میری برادری کے خچر نہ ہوتے تو سلطنت کے بے شمار کام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رکے رہتے ۔“

بادشاہ نے محسوس کیا کہ خچر حق بجانب ہے چنانچہ خچر کو درجہ اول کا تمغہ عطا کرنے کا

حکم صادر ہوگیا۔خچر خوشی خوشی واپس ہو رہا تھا کے راستے میں گدھا ملا

گدھے نے خچر کو سلام کیا 

"سلام پیارے بھتیجے۔‘‘

"سلام، پچا جان ۔ خچر نے جواب دیا ۔

کہو، اتنے خوش خوش کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘

خچر نے سارا واقعہ سنایا تو گدھا رینکا:

زرا ٹھہرو میں بھی جا کر بادشاہ سلامت سے اپنا حق طلب کرتا ہوں ۔

یہ کہا اور بھاگم بھاگ سیدھا شاہی محل کے گیٹ پر جا پہنچا۔ محافظوں نے ڈرایا دھمکایا،

دربانوں نے منت سماجت کر کے گدھے کو واپس لوٹ جانے کی ترغیب دی ، لیکن گدھا کہاں سنتا

تھا۔ وہ لگا تار بادشاہ سلام سے ملاقات کی رٹ لگاتا رہا۔ آخر کار بادشاہ کواطلاع دی گئی ۔ 

گدھے کو حاضری کی اجازت مل گئی۔ انسانوں اورحیوانوں کی درخواستیں سن سن کر بادشاہ تنگ آ چکا تھا۔

جھلا کر گدھے سے کہا 

گدھے کہیں کے تمہیں کیسے جرات ہوئی کہ اپنا گدھا پن بھولکر شاہی محل پہنچے ہو اور

مابدولت سے ملاقات پر مصر ہو

تمہارا کام ہی کیا ہے سوائے ڈھینچوں ڈھینچوں کرنےکے


گدھے کی امیدیں خاک میں مل گئیں مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور کہا


بادشاہ سلامت آپ کو پتہ ہی نہیں ہے کہ آپ کی سب سے زیادہ خدمت تو ہم گدھے ہی کرتے ہیں

زرا سوچئے اگر ہم جیسے لاکھوں کروڑوں گدھے آپ کو بادشاہ نہ مانیں تو آپ اتنی مدت شہنشاہ رہ کتے تھے بھلا؟؟

ہمیں دعائیں دیجئے

ہماری وجہ سے آپ کی کرسی سلامت ہے


یہ سن کر بادشاہ سوچ میں پڑگیا اور گدھے سے مخاطب ہو کر کہا


اے میرے وفادار گدھے

تیری اس خدمت کا صلہ دینے کے لیے کوئی تمغہ نہیں بنا

بس یہ ہے کہ سرکاری غلہ خانے سے روز ایک بوری گھاس کا وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے

سرکاری اناج کھاتے جاؤ

ہمارے گُن گاتے جاؤ