Abdur Rahman bn Awf (R.A.)

تجارت + ملازمت + توکل

جب آپ رضہ اللہ  کی وفات ہوئی تو ترکے میں صرف “کرنسی” کی مد میں 4 ارب 20 کروڑ 10 لاکھ دینار چھوڑے تھے۔ ایک دینار گول سونے کا کچھ بھاری سا سکہ ہوتا تھا جو کہ ساڑھے 4 ماشے کے برابر تھا اور اسوقت ایک ماشہ پاکستانی 6 یا 7 ہزار روپے کا ہے۔ ایک ہزار گھوڑے، ایک ہزار اونٹ اور 10 ہزار بکرے، بکریاں اور مویشی اس کے علاوہ تھے۔ مدینے اور اس کے اطراف میں بے شمار زمینیں تھیں، جبکہ آپ کی جائیداد میں سونے کی سلیں تک موجود تھیں ۔

 وفات کے بعد ان سلوں کو کلہاڑوں سے کاٹا گیا۔ مزدوروں نے صبح کاٹنا شروع کیا تو شام ہوگئی اور مزدوروں کے ہاتھ تک سوج گئے۔آپ کی وفات کے وقت آپ کی چاروں ازواج حیات تھیں اور بیوی کے حصے میں جائداد کا آٹھواں حصہ آتا ہے۔ آپ کی ایک ایک بیوی کے حصے میں کرنسی کی صورت میں 4 لاکھ دینار یعنی 400 ملین درہم آئے۔ یہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ تھے جن کو نہ صرف بدری صحابی ہونے کا اعزاز حاصل ہے بلکہ یہ ان 10 صحابہ میں آٹھویں نمبر پر موجود ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہی نام لے کر جنت کی بشارت دی تھی۔

حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اسلام سے پہلے بھی تجارت ہی کیا کرتے تھے اور حضرت عثمانؓ کے بہترین دوستوں میں شامل تھے۔ جب ہجرت کرکے مدینہ آئے تو بالکل مفلوک الحال ہوچکے تھے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مواخات بھی ایک انصاری صحابی سے کروادی۔ آپ نے ان انصاری صحابی سے  کچھ نا لیا صرف یہ پوچھا کہ بازار کا راستہ کہاں ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ جو کماتے اس کے دو حصے کر دیتے تھے ایک حصہ خود رکھتے اور ایک حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش کر دیتے۔

 ایک دفعہ 8 ہزار دینار کمائے تو 4 ہزار اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا گھر پر کیا چھوڑا؟ فرمایا اتنا ہی ہے جتنا لے کر آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی “اے اللہ! عبدالرحمن جو رحمان کا تاجر ہے اس کے دونوں مالوں میں جو یہاں لے کر آیا ہے اور جو گھر پر چھوڑ کر آیا ہے اس میں برکت عطا فرما”۔ 

عبدالرحمنؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے میں مٹی کو بھی ہاتھ لگاتا تھا تو وہ سونا بن جاتی تھی۔ ایک دفعہ مدینے میں ریت کا طوفان آ گیا لوگ حیران پریشان گھروں سے باہر نکل آئے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ بھی دروازے پر آ گئیں اور پوچھا یہ طوفان کیسا ہے؟م  لوگوں نے بتایا کہ عبدالرحمن بن عوفؓ کا تجارتی قافلہ آیا ہے۔ آپ نے حیرت سے دریافت کیا بھلا تجارتی قافلہ بھی ایسا ہوسکتا ہے؟ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے عین وسط شہر میں 700 سامان سے لدے اونٹ کھڑے تھے۔ عبدالرحمن بن عوفؓ روتے جاتے اور لوگوں میں سامان بانٹتے جاتے تھے، حتی کہ پورے 700 اونٹوں کا سامان لوگوں میں تقسیم کر دیا۔

 مجموعی طور پر اسلام اور اسلامی معاشرے کا مزاج یہی ہے کہ تجارت اور کاروبار کو فروغ دیا جائے جبکہ نوکری اور غلامی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ رزق کے 10 دروازے ہیں جن میں سے 9 تجارت میں کھلتے ہیں اور باقی 1 میں دوسرے تمام شامل ہیں۔

 لوگ اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ اسلام تبلیغ سے پھیلا یا تلوار سے؟ میرا ماننا یہ ہے کہ اسلام تجارت سے پھیلا ہے۔ مسلمان بے انتہا وسیع سوچ کے مالک تھے۔ یہ خود کو “برانڈ” بنانا اور “برانڈ” کرنا جانتے تھے۔ مسلمانوں نے خود کو کبھی بھی مکہ، مدینہ یا عرب تک محدود نہیں کیا۔ یہ ایران، عراق اور ہندوستان سے ہوتے ہوئے جزائر غرائب الہند تک پہنچ جاتے تھے اور اپنی “برانڈ” ساری دنیا میں متعارف کرواتے تھے۔

 ان کی برانڈ کا نام “اسلام” تھا۔ مقصد اسلام ہوتا تھا اور نتیجے میں پیسہ بھی ملتا تھا۔ یہ کپڑے میں نقص اور عیب بتا کر بیچتے تھے، یہ بارش کے بعد گاہک کو بتاتے تھے کہ بارش کی وجہ سے گندم گیلی ہو گئی ہے اسلئے ہم اس کو اس کی اصل قیمت سے کم پر بیچیں گے۔ یہ معمولی فائدے پر بھی گاہک کو اچھی چیز بیچ دیتے تھے اور بیچا ہوا مال واپس بھی لیتے تھے اور تبدیل بھی کرتے تھے۔

آج ساری دنیا کو یہ بات سمجھ آ چکی ہے کہ امپورٹ، ایکسپورٹ، سرمایہ کاری اور تجارت کرنے والوں کو عزت دینے سے ملک اور قومیں ترقی کرتی ہیں، لیکن جن کے اباؤ اجداد نے 3 براعظموں میں اپنا کاروبار متعارف کروایا وہی اس بات سے ناواقف ہیں۔

 دنیا میں 500 بڑی آئل کمپنیز ہیں لیکن ان میں سے ایک بھی کسی بھی مسلمان ملک کی نہیں ہے جب کہ تیل پیدا کرنے والے 11 میں سے 10 ممالک عرب ہیں۔ آپ کمال ملاحظہ کریں کہ مدینے میں یہودیوں کے مقابلے میں جو بازار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا وہاں پر باہر سے آنے والوں کو ”ٹیکس فری” ماحول دیا گیا۔ وہ وہاں اپنے خیمے لگاتے تھے لیکن ان سے کسی بھی قسم کی کوئی رقم نہیں لی جاتی تھی جب کہ اس کے مقابلے میں یہودی بھاری بھاری ٹیکس لیتے تھے۔

آج کاروباری لوگوں کے لیے اسرائیل ٹیکس فری ہے جبکہ ہمارے ملک میں کاروبار کرنا ہی عذاب بن گیا ہے