The Story of Iblees



کہانی ابلیس کی
یہ کہانی زمین کی پیدائش کے وقت سے پہلے کی ہے۔

ایک جن تھا شاید عزازیل نامی، بہت عبادت گزار، اتنا کہ اس کا رتبہ فرشتوں کے برابر ہو گیا تھا، بلکہ اس سے بھی افضل۔ آسمانوں میں بہت اوپر، آگ، نور سے افضل ہو گئی تھی۔ خالق کی عبادت اسی طرح رتبہ بلند کرتی ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے زمین کی تخلیق کی اور تم جانو کہ زمین کتنی حسین ہے۔

تو جب اللہ نے کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے لگا ہوں تو عزازیل نے سوچا کہ کون ہے جو مجھ سے برتر ہے تمام مخلوق میں یہ خلافت تو میرا ہی حق ہے۔

سجدے اور طویل ہو گئے لیکن اللہ تو ہر دل میں چھپے بھید جانتا ہے۔ کونسا سجدہ اطاعت ہے، کونسا محبت اور کونسا ریاکاری؟ اس سے کیا پوشیدہ ہے؟

اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ زمین سے مٹی لے کر آؤ۔ یوں تخلیق ہوئی انسان کی۔ اللہ نے آدم کی پیشانی میں اپنا اسم رکھا اور اعلان کیا کہ انسان ہے زمین پر میرا نائب، میرا خلیفہ۔

عزازیل بہت مایوس ہوا، دل گرفتہ ہوا کہ میری اتنی عبادات رائگاں گئیں۔ پھر اللہ نے حکم دیا کہ "وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-" (سورۃ البقرہ :۳۴) اور یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا۔

تو وہ جو عزازیل تھا، عبادت گزار، فرشتوں سے افضل، مایوس ہوا اور اللہ کی حکم عدولی کر بیٹھا کہ "کہا کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی بنایا ہے" (سورہ الاسراء :۶۱) اور کہا بھلا دیکھ تو یہ شخص جسے تو نے مجھ سے بڑھایا، اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں بھی سوائے چند لوگوں کے اس کی نسل کو قابو میں کر کے رہوں گا۔ (سورہ الاسراء :۶۲)

تو رب العالمین نے اسے قیامت تک کی مہلت دی کہ جا کوشش کر دیکھ، ان میں سے بہت سے لوگ ہیں جو ثابت کریں گے کہ یہ واقعی اشرف المخلوقات ہیں، کوئی خوف، کوئی لالچ انہیں راہِ حق سے متزلزل نہ کر سکے گا، وہی جنت کے حقیقی وارث ہوں گے۔
فرمایا جا پھر ان میں سے جو کوئی تیرے ساتھ ہوا تو جہنم تم سب کی پوری سزا ہے۔ (سورہ الاسراء :۶۳)

عزازیل، ابلیس کیوںکر بنا؟ عبادت تو بہت تھی اس کے کھیسے میں مگر محبت نہیں تھی، سجدے تھے مگر اخلاص سے عاری۔

مایوس ہوا رب سے، ابلیس کہلایا، تکبر کیا، رائندہء درگاہ ہوا۔

آج تک انسانوں کو بہکاتا چلا آرہا ہے کہ خالق نے اسے مہلت دی ہے قیامت تک۔ یہ سلسلہ تو چلتا ہی جانا ہے۔

اب بات کرتے ہیں وطنِ عزیز کے موجودہ حالات کی۔

پچھتر سال بعد کچھ امید بندھی تھی کہ شاید ہم آزاد ہو جائیں گے، ہر طرح کے اندرونی اور بیرونی مافیا سے مگر ابلیس  کو کہاں گوارا - اس نے بائیس کروڑ لوگوں کے منتخب سربراہ کو سازش کرکے گرا دیا اور لے آیا ایسی حکومت جو نہ ملک سے مخلص ہے نہ قوم سے۔

خاصیت ہے تو بس جی حضوری اور ہیں کچھ ففتھئے جو یہ چورن بیچ رہے ہیں کہ جی تیس سال کی محنت ہوتی ہے یہاں تک پہنچنے کے لئے۔

تو ابلیس کی داستان ان کے لئے ہی تھی، ابلیس نے بھی بہت عبادت کی لیکن اپنے مقصد تخلیق سے روگردانی کی، اللہ کی اطاعت نہیں کی اور رائندہء درگاہ ہوا۔

دنیا کے ہر ابلیس کی خدمت میں حبیب جالب کے یہ اشعار نذر ہیں

"تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشین تھا
 اس کو بھی اپنے خدا ہونے پر اتنا ہی یقین تھا
 کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
 وہ کہاں ہیں جو اس وقت یہاں تیرے تئیں تھے؟
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
 کوئی شعلہ، کوئی شبنم، کوئی مہتاب جبیں تھے۔"